سر طوفان غم اکثر سہارا ڈھونڈ لیتے ہیں
اداسی کے سمندر میں کنارہ ڈھونڈ لیتے ہیں
کبھی تو سامنے کی بات بھی ہم پر نہیں کھلتی
کبھی تہداریوں میں گم اشارہ ڈھونڈ لیتے ہیں
طبیعت رنگ میں آئے تو ہم چشم تصور سے
کسی بے جان منظر میں نظارہ ڈھونڈھ لیتے ہیں
بدل ڈالے ہیں کتنے گھر خوشی کے واسطے ہم نے
مگر یہ غم ہمیشہ گھر ہمارا ڈھونڈھ لیتے ہیں
زمیں جو مہرباں ہوتی نہیں تو اب یہی حل ہے
فلک پر اپنی قسمت کا ستارا ڈھونڈ لیتے ہیں
ہماری ناامیدی اور تمہاری آرزوؤں کا
مداوا ایک ہے مل کر خدارا ڈھونڈ لیتے ہیں
گریزاں ہونے لگتی ہے کبھی جب شاعری ہم سے
بہانہ اس سے ملنے کا دوبارہ ڈھونڈ لیتے ہیں

غزل
سر طوفان غم اکثر سہارا ڈھونڈ لیتے ہیں
سلمان ثروت