سر تربت کہیں اک حسن کی تصویر دیکھی ہے
ارے او مرنے والے یوں تری تقدیر دیکھی ہے
سلگتی آگ کے دریا کئے طے ڈوب کر میں نے
تڑپتی زندگی سے بازئ شمشیر دیکھی ہے
نہ بہلائیں مجھے اب جھوٹے وعدوں سے مرے رہبر
بہت کچھ آج تک ان کی رہ تدبیر دیکھی ہے
پہاڑوں کو ہلا دے منقلب کر دے زمانوں کو
نظر نے وہ صدائے حلقۂ زنجیر دیکھی ہے
بنا دے مجھ سے جیسے نابلد کو بھی جو اک شاعر
وہ میں نے حضرت مخمورؔ میں تاثیر دیکھی ہے
غریبی مفلسی بے چارگی غم کی ہراسانی
بانداز جلی ہر سمت یہ تحریر دیکھی ہے
جو آہن موم کر دے اور پتھر کو بھی پگھلا دے
جناب ضبطؔ کی باتوں میں وہ تاثیر دیکھی ہے
غزل
سر تربت کہیں اک حسن کی تصویر دیکھی ہے
شیو چرن داس گوئل ضبط