EN हिंदी
سر آئینہ حیرانی بہت ہے | شیح شیری
sar-e-aina hairani bahut hai

غزل

سر آئینہ حیرانی بہت ہے

عرفان وحید

;

سر آئینہ حیرانی بہت ہے
ستم گر کو پشیمانی بہت ہے

خرد کی گرچہ ارزانی بہت ہے
جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے

سبھی وحشی یہیں پر آ رہے ہیں
مرے گھر میں بیابانی بہت ہے

یہاں ہر چند سب خوش پیرہن ہیں
مگر دیکھو تو عریانی بہت ہے

نہ جانے کب مری مٹھی میں آئے
وہ اک لمحہ کہ ارزانی بہت ہے

عجب الجھن کہ چپ رہنا بھی مشکل
جو کہہ دوں تو پشیمانی بہت ہے

میں سمت دشت جانا چاہتا تھا
مگر اس میں تن آسانی بہت ہے

بھلا کر بیٹھتا ہوں ہر کسی کا
ابھی مجھ میں یہ نادانی بہت ہے

خدایا جوڑ کیا ہے عشق و دل کا
تری بخشش پہ حیرانی بہت ہے

زمیں کو راس کب آئے گا عرفاںؔ
وہ حرف حق کہ نقصانی بہت ہے