EN हिंदी
سر بھی ہے پائے یار بھی شوق سوا کو کیا ہوا | شیح شیری
sar bhi hai pa-e-yar bhi shauq-e-siwa ko kya hua

غزل

سر بھی ہے پائے یار بھی شوق سوا کو کیا ہوا

شکیل بدایونی

;

سر بھی ہے پائے یار بھی شوق سوا کو کیا ہوا
جرأت دل کدھر گئی لغزش پا کو کیا ہوا

حسرت عفو کیا ہوئی جرم و خطا کو کیا ہوا
سامنے ہے در کرم دست دعا کو کیا ہوا

وقف مذاق جستجو دیدہ و دل ہیں اب کہاں
منزل شوق پا ہی کی غیرت پا کو کیا ہوا

جذب و اثر سے بن گیا اور بھی دشمن آسماں
کر دیا راز دل عیاں آہ رسا کو کیا ہوا

کل تو بحد شکوہ تھیں عشق کی بدگمانیاں
اب نہ ندامتیں ہیں کیوں شکوہ سرا کو کیا ہوا

شاعر بزم عقل و ہوش ہاں کوئی اور نغمہ سروش
دل کی صدا ہے کیوں خموش دل کی صدا کو کیا ہوا

یوں تو ہزار نقش ہیں صفحۂ کائنات پر
اس کا پتہ نہیں مگر نقش وفا کو کیا ہوا

گم‌ شدۂ جمال ہوں دل ہی کو ساتھ اے شکیلؔ
مجھ کو بھی لے کے کھو گیا راہنما کو کیا ہوا