سر بچے یا نہ بچے طرۂ دستار گیا
شاہ کج فہم کو شوق دو سری مار گیا
اب کسی اور خرابے میں صدا دے گا فقیر
یاں تو آواز لگانا مرا بے کار گیا
سرکشو شکر کرو جائے شکایت نہیں دار
سر گیا بار گیا طعنہ اغیار گیا
اولیں چال سے آگے نہیں سوچا میں نے
زیست شطرنج کی بازی تھی سو میں ہار گیا
صد ایام پہ پٹخے ہے دوانہ سر کو
جس کو چاہا کہ نہ جائے وہی اس بار گیا
غزل
سر بچے یا نہ بچے طرۂ دستار گیا
علی افتخار جعفری