سر بسر شاخ دل ہری رہے گی
تا ابد آنکھ میں تری رہے گی
میں نے قصہ ہی پاک کر ڈالا
عشق ہوگا نہ خود سری رہے گی
عکس بنتے رہیں گے پیش نظر
صورت آئینہ گری رہے گی
سطر در سطر خوں جلایا ہے
لفظ میں روشنی بھری رہے گی
خامشی اوڑھ لی درختوں نے
آرزوئے سخن وری رہے گی
کوئی منزل تلاش لی جائے
اب کہاں تک یہ بے گھری رہے گی
باغ میں ہے قیام کا موقع
سب پرندوں سے دلبری رہے گی
کیا ہمیشہ بھٹکنا ہے مجھ کو
کیا ہمیشہ سبک سری رہے گی
زندگی سے ڈری رہوں گی میں
زندگی سائے سے ڈری رہے گی
چاند اگر ڈوب بھی گیا ماہینؔ
طاق پر چاندنی دھری رہے گی

غزل
سر بسر شاخ دل ہری رہے گی
راشدہ ماہین ملک