سر بہ سر ایک چمکتی ہوئی تلوار تھا میں
موج دریا سے مگر بر سر پیکار تھا میں
میں کسی لمحۂ بے وقت کا اک سایہ تھا
یا کسی حرف تہی اسم کا اظہار تھا میں
ایک اک موج پٹخ دیتی تھی باہر مجھ کو
کبھی اس پار تھا میں اور کبھی اس پار تھا میں
اس نے پھر ترک تعلق کا بھی موقع نہ دیا
گھٹتے رشتوں سے کہ ہر چند خبردار تھا میں
اس تماشے میں تأثر کوئی لانے کے لیے
قتل بانیؔ جسے ہونا تھا وہ کردار تھا میں
غزل
سر بہ سر ایک چمکتی ہوئی تلوار تھا میں
راجیندر منچندا بانی