EN हिंदी
سنور جائے بھی تو منہ دیکھنے درپن نہیں ملتا | شیح شیری
sanwar jae bhi to munh dekhne darpan nahin milta

غزل

سنور جائے بھی تو منہ دیکھنے درپن نہیں ملتا

صابر شاہ صابر

;

سنور جائے بھی تو منہ دیکھنے درپن نہیں ملتا
غریبی کی کلائی میں کوئی کنگن نہیں ملتا

بڑوں کی خواہشوں کا بوجھ ہے ننھے سے کندھوں پر
ہمارے دور میں بچوں کو اب بچپن نہیں ملتا

میں ضد کر کے کبھی روتا تو آنسو پونچھ لیتی تھی
ابھی روتا ہوں تو شفقت بھرا دامن نہیں ملتا

کہیں جھولے نہیں پڑتے کبھی سرسوں نہیں پھولی
یہاں پردیس میں آ کر مجھے ساون نہیں ملتا

سیاست کی دکانوں سے خریدیں ہیں نئے چہرے
سبھی رہبر بنیں پھرتے ہیں اک رہزن نہیں ملتا

مرے اسلاف سا کوئی امانت دار ہے صابرؔ
اگر مصرف ہو ذاتی تو دیا روشن نہیں ملتا