EN हिंदी
سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤ گے | شیح شیری
sansar se bhage phirte ho bhagwan ko tum kya paoge

غزل

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤ گے

ساحر لدھیانوی

;

سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤ گے
اس لوک کو بھی اپنا نہ سکے اس لوک میں بھی پچھتاؤ گے

یہ پاپ ہے کیا یہ پن ہے کیا ریتوں پر دھرم کی ٹھہریں ہیں
ہر یگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤ گے

یہ بھوک بھی ایک تپسیا ہے تم تیاگ کے مارے کیا جانو
اپمان رچیتا کا ہوگا رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے

ہم کہتے ہیں یہ جگ اپنا ہے تم کہتے ہو جھوٹا سپنا ہے
ہم جنم بتا کر جائیں گے تم جنم گنوا کر جاؤ گے