سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤ گے
اس لوک کو بھی اپنا نہ سکے اس لوک میں بھی پچھتاؤ گے
یہ پاپ ہے کیا یہ پن ہے کیا ریتوں پر دھرم کی ٹھہریں ہیں
ہر یگ میں بدلتے دھرموں کو کیسے آدرش بناؤ گے
یہ بھوک بھی ایک تپسیا ہے تم تیاگ کے مارے کیا جانو
اپمان رچیتا کا ہوگا رچنا کو اگر ٹھکراؤ گے
ہم کہتے ہیں یہ جگ اپنا ہے تم کہتے ہو جھوٹا سپنا ہے
ہم جنم بتا کر جائیں گے تم جنم گنوا کر جاؤ گے

غزل
سنسار سے بھاگے پھرتے ہو بھگوان کو تم کیا پاؤ گے
ساحر لدھیانوی