سنکھ مندر بجاتا رہا
دیپ جنگل جگاتا رہا
انگلیاں جب شعاعیں بنیں
پھر نہ سورج سے ناتا رہا
تھا سمندر مرے سامنے
میں لکیریں بناتا رہا
سیپیاں کوکھ کی ہستیاں
ہار موتی دکھاتا رہا
کھا کے کشتی کی لکڑی مری
بھوک طوفاں مٹاتا رہا
پشت در پشت تھا دور جب
کیوں کھنڈر پاس آتا رہا
غزل
سنکھ مندر بجاتا رہا
مہدی جعفر