سنجیدہ طبیعت کی کہانی نہیں سمجھے
آنکھو میں رہے اور وو پانی نہیں سمجھے
ایک شعر ہوا یوں کہ کلیجے سے لگا ہے
دریا میں اتر کر بھی روانی نہیں سمجھے
کیا خط میں لکھا جائے کہ سمجھائے انہیں ہم
جو سامنے رہ کر بھی زبانی نہیں سمجھے
بچپن کو لٹایا ہے جوانی کے لئے یار
ہم لوگ جوانی کو جوانی نہیں سمجھے
پہلے تو کہا راؤؔ کوئی شعر سناؤ
پھر دوست مری بات کے معنی نہیں سمجھے
غزل
سنجیدہ طبیعت کی کہانی نہیں سمجھے
ناصر راؤ