سنگ کو چھوڑ کے تو نے کبھی سوچا ہی نہیں
اپنی ہستی میں خدا کو کبھی ڈھونڈا ہی نہیں
الجھا الجھا سا ہے کیوں اپنے بھرم میں ہر دم
تو نے خود اپنے گریبان میں جھانکا ہی نہیں
تیرے ہونے سے کرم اس کا نظر آتا ہے
تجھ سے بڑھ کر کوئی شاہد وہ دکھاتا ہی نہیں
اس کے بندوں میں اسے ڈھونڈ اگر ہے خواہش
وہ صنم خانوں کے در پر کبھی دکھتا ہی نہیں
لمحہ لمحہ وہ سمایا ہے رگ و پے میں صباؔ
حد سے آگے کبھی احساس نے چھوڑا ہی نہیں
غزل
سنگ کو چھوڑ کے تو نے کبھی سوچا ہی نہیں
ببلس ھورہ صبا