EN हिंदी
سنگ کو چھوڑ کے تو نے کبھی سوچا ہی نہیں | شیح شیری
sang ko chhoD ke tu ne kabhi socha hi nahin

غزل

سنگ کو چھوڑ کے تو نے کبھی سوچا ہی نہیں

ببلس ھورہ صبا

;

سنگ کو چھوڑ کے تو نے کبھی سوچا ہی نہیں
اپنی ہستی میں خدا کو کبھی ڈھونڈا ہی نہیں

الجھا الجھا سا ہے کیوں اپنے بھرم میں ہر دم
تو نے خود اپنے گریبان میں جھانکا ہی نہیں

تیرے ہونے سے کرم اس کا نظر آتا ہے
تجھ سے بڑھ کر کوئی شاہد وہ دکھاتا ہی نہیں

اس کے بندوں میں اسے ڈھونڈ اگر ہے خواہش
وہ صنم خانوں کے در پر کبھی دکھتا ہی نہیں

لمحہ لمحہ وہ سمایا ہے رگ و پے میں صباؔ
حد سے آگے کبھی احساس نے چھوڑا ہی نہیں