سنگ آتا ہے کوئی جب مرے سر کی جانب
دیکھ لیتا ہوں ثمر بار شجر کی جانب
اس مسافت کا کوئی انت نہیں ہے لیکن
دن نکلتے ہی میں چل پڑتا ہوں گھر کی جانب
کس نے آواز مجھے ساحل جاں سے دی ہے
ناؤ کیوں دل کی لپکتی ہے بھنور کی جانب
قصۂ شوق کو اس تشنہ لبی کا لکھنا
کر کے اک اور سفر شہر ہنر کی جانب
پھر سے انگاروں کا موسم مرے اندر اترا
پھر بڑھا ہاتھ مرا لعل و گہر کی جانب
یہ جو ہے صورت حالات بدل سکتی ہے
کاش کر پاؤں سفر خیر سے شر کی جانب
عین ممکن ہے کہ پتھراتا نہ کوئی عزمیؔ
تو نے دیکھا ہی نہیں مڑ کے نگر کی جانب

غزل
سنگ آتا ہے کوئی جب مرے سر کی جانب
اسلام عظمی