EN हिंदी
سنگ آتا ہے کوئی جب مرے سر کی جانب | شیح شیری
sang aata hai koi jab mere sar ki jaanib

غزل

سنگ آتا ہے کوئی جب مرے سر کی جانب

اسلام عظمی

;

سنگ آتا ہے کوئی جب مرے سر کی جانب
دیکھ لیتا ہوں ثمر بار شجر کی جانب

اس مسافت کا کوئی انت نہیں ہے لیکن
دن نکلتے ہی میں چل پڑتا ہوں گھر کی جانب

کس نے آواز مجھے ساحل جاں سے دی ہے
ناؤ کیوں دل کی لپکتی ہے بھنور کی جانب

قصۂ شوق کو اس تشنہ لبی کا لکھنا
کر کے اک اور سفر شہر ہنر کی جانب

پھر سے انگاروں کا موسم مرے اندر اترا
پھر بڑھا ہاتھ مرا لعل و گہر کی جانب

یہ جو ہے صورت حالات بدل سکتی ہے
کاش کر پاؤں سفر خیر سے شر کی جانب

عین ممکن ہے کہ پتھراتا نہ کوئی عزمیؔ
تو نے دیکھا ہی نہیں مڑ کے نگر کی جانب