EN हिंदी
سن کر بیان درد کلیجہ دہل نہ جائے | شیح شیری
san kar bayan-e-dard kaleja dahal na jae

غزل

سن کر بیان درد کلیجہ دہل نہ جائے

شاذ تمکنت

;

سن کر بیان درد کلیجہ دہل نہ جائے
دنیا سے ڈر رہے تھے کہ دنیا بدل نہ جائے

ہر محفل نشاط سے پھرتا ہوں دور دور
کیا احتیاط ہے کہ ترا غم بہل نہ جائے

تو آج تک تو ہے مری نظروں میں ہو بہ ہو
دنیا بدل گئی تری صورت بدل نہ جائے

ہیں طاق آرزو پہ کھلونے سجے ہوئے
مایوس آرزو کی طبیعت مچل نہ جائے

تشنہ لبی کہیں مجھے غرقاب کر نہ دے
تھوڑی سی روشنی کے لیے گھر ہی جل نہ جائے

اک خوف ہے کہ منزل نسیاں قریب ہے
تو وادئ خیال سے آگے نکل نہ جائے

روؤں کہاں کہ راحت خلوت نہیں ہے شاذؔ
ہنسنے پہ بھی یہ شرط کہ آنسو نکل نہ جائے