EN हिंदी
سمندروں میں اگر خلفشار آب نہ ہو | شیح شیری
samundaron mein agar KHalfishaar-e-ab na ho

غزل

سمندروں میں اگر خلفشار آب نہ ہو

شاہد میر

;

سمندروں میں اگر خلفشار آب نہ ہو
سروں پہ سایہ فگن یہ غبار آب نہ ہو

وہ آسمان سمجھتا ہے اپنی آنکھوں کو
اسے بھی میری طرح انتظار آب نہ ہو

ہر ایک لب پہ ہیں نغمات خشک سالی کے
اب اس طرف کرم بے شمار آب نہ ہو

کہیں فریب نہ نکلے پکار دریا کی
ہم آب سمجھے ہیں جس کو غبار آب نہ ہو

پھر اہتمام سے آئے ہیں گھر کے ابر مگر
وہ کیا کرے کہ جسے اعتبار آب نہ ہو

سیاہ ہونے لگا ہے دیار تشنہ لبی
اب اس مقام سے روشن شرار آب نہ ہو

جو گھر سے نکلا ہے پانی کی کھوج میں شاہدؔ
کہیں وہ دفن سر رہ گزار آب نہ ہو