سمندر آنکھ سے اوجھل ذرا نہیں ہوتا
ندی کو ڈر کسی چٹان کا نہیں ہوتا
وہ جب بھی روتا ہے میں ساتھ ساتھ روتا ہوں
مزے کی بات ہے اس کو پتا نہیں ہوتا
مسافروں کے لیے منزلیں ہی ہوتی ہیں
مسافروں کے لیے راستہ نہیں ہوتا
تماشا گاہ میں کس کا تماشا ہوتا ہے
تماش بینوں کو اس کا پتا نہیں ہوتا
میں روز فون پر اس کو صدائیں دیتا ہوں
خدا کے ساتھ مرا رابطہ نہیں ہوتا
جہاں ملیں انہیں سجدہ گزاریئے صاحب
محبتوں کے لیے سوچنا نہیں ہوتا
وہاں چراغ جلاتا ہوں زندگی کا اشکؔ
جہاں ہوا کے لیے راستہ نہیں ہوتا
غزل
سمندر آنکھ سے اوجھل ذرا نہیں ہوتا
پروین کمار اشک