EN हिंदी
سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا | شیح شیری
sambhal ke dekha to kanch sa jism kirchiyon mein baTa hua tha

غزل

سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا

نثار ناسک

;

سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا
خبر نہیں ہے کہ میرے اندر وہ اک دھماکہ سا کیا ہوا تھا

وہ کھو گیا تھا تو یوں لگا تھا کہ عزت نفس لٹ گئی ہے
میں روز کے ملنے والے لوگوں میں اک کھلونا بنا ہوا تھا

خزاں کی وہ سرد رات بھی میں نے گھر سے باہر گزار دی تھی
کہ میرے بستر پہ لاش بن کر مرا ہی سایہ پڑا ہوا تھا

سب اپنی اپنی صدا کے پرچم سپرد شب کر کے سو چکے تھے
بس ایک میں ہی مہیب لمحوں کے لشکروں میں گھرا ہوا تھا

جسے وہ سانسوں کی لوریوں سے مرے بدن میں سلا گئی تھی
پلٹ کے آئی تو وہ چہکتا شریر بچہ مرا ہوا تھا

یہ ایک پرچھائیں سی جو صدیوں سے میرے ہم راہ چل رہی ہے
یہی مرا حرف ابتدا ہے میں جس سے اک دن جدا ہوا تھا