سنبھل کر آہ بھرنا اے اسیر دام تنہائی
کہیں ہاتھوں سے چھٹ جائے نہ دامان شکیبائی
عجب انداز رکھتی ہے ادائے دشت پیمائی
کہ خود ہی خار بڑھ کر چومتے ہیں پائے سودائی
جو رنگ حسن خاموشی ہے وہ کھوتی ہے گویائی
ہوا جب لب کشا غنچہ تو باہر بو نکل آئی
ابھی تو بس تصور ہے تمہارے آستانے کا
ابھی دیکھا کہاں تم نے مرا ذوق جبیں سائی
کچھ اس انداز سے چھیڑا نگاہ ناز جاناں نے
کہ رہ رہ کر ہمارے دل کے زخموں کو ہنسی آئی
رہے انکار میں اقرار کا اعجاز بھی پنہاں
کرو خون وفا لیکن بہ انداز مسیحائی
عرق آگیں جبیں انسانیت کی ہو گئی جنبشؔ
کہ دور آیا ہے وہ شرم و حیا کی آنکھ بھر آئی

غزل
سنبھل کر آہ بھرنا اے اسیر دام تنہائی
جنبش خیرآبادی