سنبھل ہی لیں گے مسلسل تباہ ہوں تو سہی
عذاب زیست میں رشک گناہ ہوں تو سہی
کہیں تو ساحل نایافت کا نشاں ہوگا
جلا کے خود کو تقاضائے آہ ہوں تو سہی
مجال کیا کہ نہ منزل بنے نشان وفا
سفیر خود نگراں گرد راہ ہوں تو سہی
صدا بہ دشت بنے گی نہ یہ لہو کی تپش
لہو کے چھینٹے مگر گاہ گاہ ہوں تو سہی
غزل
سنبھل ہی لیں گے مسلسل تباہ ہوں تو سہی
کشور ناہید

