EN हिंदी
سنبھل ہی لیں گے مسلسل تباہ ہوں تو سہی | شیح شیری
sambhal hi lenge musalsal tabah hon to sahi

غزل

سنبھل ہی لیں گے مسلسل تباہ ہوں تو سہی

کشور ناہید

;

سنبھل ہی لیں گے مسلسل تباہ ہوں تو سہی
عذاب زیست میں رشک گناہ ہوں تو سہی

کہیں تو ساحل نایافت کا نشاں ہوگا
جلا کے خود کو تقاضائے آہ ہوں تو سہی

مجال کیا کہ نہ منزل بنے نشان وفا
سفیر خود نگراں گرد راہ ہوں تو سہی

صدا بہ دشت بنے گی نہ یہ لہو کی تپش
لہو کے چھینٹے مگر گاہ گاہ ہوں تو سہی