EN हिंदी
سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے | شیح شیری
sambhaalne se tabiat kahan sambhalti hai

غزل

سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے

محبوب خزاں

;

سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
وہ بے کسی ہے کہ دنیا رگوں میں چلتی ہے

یہ سرد مہر اجالا یہ جیتی جاگتی رات
ترے خیال سے تصویر ماہ جلتی ہے

وہ چال ہو کہ بدن ہو کمان جیسی کشش
قدم سے گھات ادا سے ادا نکلتی ہے

تمہیں خیال نہیں کس طرح بتائیں تمہیں
کہ سانس چلتی ہے لیکن اداس چلتی ہے

تمہارے شہر کا انصاف ہے عجب انصاف
ادھر نگاہ ادھر زندگی بدلتی ہے

بکھر گئے مجھے سانچے میں ڈھالنے والے
یہاں تو ذات بھی سانچے سمیت ڈھلتی ہے

خزاں ہے حاصل ہنگامۂ بہار خزاںؔ
بہار پھولتی ہے کائنات پھلتی ہے