سمند گرم جو یاں اس سوار کا پہنچا
غبار تا فلک اس خاکسار کا پہنچا
تو سچ بتا کہ تجھے اتنی کیوں ہے بے چینی
مگر پیام کسی بے قرار کا پہنچا
ملے ہے پاؤں سے اپنے وہ لالہ رو ہر دم
یہ مرتبہ تو دل داغدار کا پہنچا
ہے یاں تلک تو نزاکت گلوں کے گجرے سے
لچکنے لگتا ہے اس گل غدار کا پہنچا
قفس سے چھٹنے کی امید ہی نہیں افسوسؔ
حصول کیا ہے جو مژدہ بہار کا پہنچا
غزل
سمند گرم جو یاں اس سوار کا پہنچا
میر شیر علی افسوس