سمجھتے ہیں جو کمتر ہر کسی کو
وہ سمجھیں تو سہی اپنی کمی کو
جہاں میں جز غم و رنج و مصیبت
ملا بھی ہے عزیزو کچھ کسی کو
کہیں بھی تو کہیں اب کیا کسی سے
سنائیں تو سنائیں کیا کسی کو
حقیقت میں نہیں بنتے کسی کے
بناتے ہیں جو اپنا ہر کسی کو
نہ پائے رفتن اب نے جائے معدن
کہاں تک روئیں اپنی بے بسی کو
تعجب ہے سمجھنے پر بھی سب کچھ
نہ سمجھا آدمی نے آدمی کو
ضیائے حضرت انورؔ نے رفعتؔ
جلا بخشی ہے میری شاعری کو
غزل
سمجھتے ہیں جو کمتر ہر کسی کو
سدرشن کمار وگل