EN हिंदी
سمجھ سکا نہ کوئی آج تک کہ کیا ہوں میں | شیح شیری
samajh saka na koi aaj tak ki kya hun main

غزل

سمجھ سکا نہ کوئی آج تک کہ کیا ہوں میں

خواجہ جاوید اختر

;

سمجھ سکا نہ کوئی آج تک کہ کیا ہوں میں
ہوا کے دوش پہ جلتا ہوا دیا ہوں میں

وجود ہوگا مجسم مرا کبھی نہ کبھی
ابھی تو تیری فضا میں بکھر رہا ہوں میں

یہ کیسے کہہ دوں کہ پہچانتا بھی ہوں اس کو
وہ جس کو ایک زمانے سے جانتا ہوں میں

دعا قبول ہوئی اضطراب باقی ہے
یہی بہت ہے کہ کچھ کامیاب سا ہوں میں

نہ جانے کب میں کنارے پہ جا لگوں جاویدؔ
سوار ناؤ پہ ہوں اور ڈوبتا ہوں میں