سمجھ رہا ہے زمانہ ریا کے پیچھے ہوں
میں ایک اور طرح سے خدا کے پیچھے ہوں
کہیں کہیں سے زیادہ سیہ ہے میرا بدن
بہت ہی کالی ہے جو اس ہوا کے پیچھے ہوں
یہ آ رہی ہے کہاں سے سمجھ نہیں آتی
بہت ہی بھید بھری اک صدا کے پیچھے ہوں
تری بنائی ہوئی فرد جرم کہتی ہے
کہ جیسے میں ہی یہاں ہر خطا کے پیچھے ہوں
ذرا سا دیکھ لوں پھر پورا کھینچ لوں گا اسے
ازل سے ہی میں کسی کم نما کے پیچھے ہوں
ہے کچھ غلط سا مری ہی سرشت میں شاہیںؔ
میں خود ہی اپنی ہر اک ابتلا کے پیچھے ہوں
غزل
سمجھ رہا ہے زمانہ ریا کے پیچھے ہوں
جاوید شاہین