EN हिंदी
سمجھ کے فرض کبھی دن کو رات مت کرنا | شیح شیری
samajh ke farz kabhi din ko raat mat karna

غزل

سمجھ کے فرض کبھی دن کو رات مت کرنا

نصیر پرواز

;

سمجھ کے فرض کبھی دن کو رات مت کرنا
گزرتے لمحوں سے تقسیم ذات مت کرنا

بچا کر تیز ہوا میں بکھرنا پڑتا ہے
انا کو نظر غم حادثات مت کرنا

نہ جانے کون کہاں کیا سوال کر بیٹھے
غبار راہ گزر اپنے ساتھ مت کرنا

سمیٹنا نہ سر راہ خواب کی کرچیں
لہو لہان کبھی اپنے ہاتھ مت کرنا

نہیں گناہ کسی شے کی آرزو لیکن
اس آرزو کو غم کائنات مت کرنا

ہیں درمیاں میں ابھی فاصلے اصولوں کے
قریب آ کے ابھی مجھ سے بات مت کرنا

زوال ذات تو پروازؔ سب کی قسمت ہے
یقین دل کو مگر بے ثبات مت کرنا