سمجھ کے فرض کبھی دن کو رات مت کرنا
گزرتے لمحوں سے تقسیم ذات مت کرنا
بچا کر تیز ہوا میں بکھرنا پڑتا ہے
انا کو نظر غم حادثات مت کرنا
نہ جانے کون کہاں کیا سوال کر بیٹھے
غبار راہ گزر اپنے ساتھ مت کرنا
سمیٹنا نہ سر راہ خواب کی کرچیں
لہو لہان کبھی اپنے ہاتھ مت کرنا
نہیں گناہ کسی شے کی آرزو لیکن
اس آرزو کو غم کائنات مت کرنا
ہیں درمیاں میں ابھی فاصلے اصولوں کے
قریب آ کے ابھی مجھ سے بات مت کرنا
زوال ذات تو پروازؔ سب کی قسمت ہے
یقین دل کو مگر بے ثبات مت کرنا
غزل
سمجھ کے فرض کبھی دن کو رات مت کرنا
نصیر پرواز