سماعتوں کو امین نوائے راز کیا
میں بے سخن تھا مجھے اس نے نے نواز کیا
وہ اپنے آپ ہی نادم ہے ورنہ ہم نے تو
تلاش اس کی ہر اک بات کا جواز کیا
یہ اس نگاہ کی ایمائیت پسندی ہے
جو سامنے کی تھیں باتیں انہیں بھی راز کیا
بدن کی آگ کو کہتے ہیں لوگ جھوٹی آگ
مگر اس آگ نے دل کو مرے گداز کیا
یہاں ہوا سے بچا کر چراغ رکھے ہیں
مکاں کے بند دریچوں کو کس نے باز کیا

غزل
سماعتوں کو امین نوائے راز کیا
سلیم احمد