سماعت کے لیے اک امتحاں ہے
خموشی ان دنوں مثل بیاں ہے
سفر اپنے ہی بھیتر کر رہا ہوں
مرا ٹھہراؤ مدت سے رواں ہے
ہوس شامل ہے تھوڑی سی دعا میں
ابھی اس لو میں ہلکا سا دھواں ہے
نیا اک خواب دیکھیں اور روئیں
اب اتنی تاب آنکھوں میں کہاں ہے
اڑا دیتی ہے اپنی خاک جب تب
زمیں کی جستجو بھی آسماں ہے
تبھی آہوں کے سر اٹھتے ہیں اس سے
ہمارا سوز جاں ہی ساز جاں ہے
ہمیشہ دور سے دیکھا کیا ہوں
جہاں مجھ کو جواہر کی دکاں ہے
مرا کردار اس میں ہو گیا گم
تمہاری یاد بھی اک داستاں ہے
محبت ایک کشتی مختصر سی
تمناؤں کا دریا بے کراں ہے
میں سارے فاصلے طے کر چکا ہوں
خودی جو درمیاں تھی درمیاں ہے
بکلؔ خوابوں کے پنچھی آ بسے ہیں
ہمارا آشیاں اب آشیاں ہے
غزل
سماعت کے لیے اک امتحاں ہے
بکل دیو