سجے سجائے ہوئے سبز منظروں سے نہ جائیں
خدا کرے کہ یہ دریا کبھی گھروں سے نہ جائیں
بنام عشق و ہوس کچھ نہ کچھ رہے روشن
کچھ ایسا ہو کہ یہ سودے کبھی سروں سے نہ جائیں
فضائے دشت طرب ناک کو دوام ملے
گلاب خوشبو سے اور تتلیاں پروں سے نہ جائیں
ضرورتوں کو زیادہ نہ کر خدائے کریم
نکل کے پاؤں بہت دور چادروں سے نہ جائیں
حروف و نطق کی ہر انجمن میں رونق ہو
خیال روٹھ کے ہرگز سخن وروں سے نہ جائیں
اسی طرح صف سیارگاں رہے قائم
نجوم و ماہ الگ اپنے محوروں سے نہ جائیں
امیر عصر سے فریاد کرنا چاہتے ہیں
سروں کو پھوڑنے یہ لوگ پتھروں سے نہ جائیں
غزل
سجے سجائے ہوئے سبز منظروں سے نہ جائیں
اسعد بدایونی