سجے ہیں ہر طرف بازار ایسا کیوں نہیں ہوتا
بکے اب تو غم لاچار ایسا کیوں نہیں ہوتا
تمہارے اور میرے درمیاں پردہ ہے غفلت کا
گرے کمبخت یہ دیوار ایسا کیوں نہیں ہوتا
ابھی یوں ہی خیال آیا اگر وہ ظلم کرتا ہے
تو پہنچے کیفر کردار ایسا کیوں نہیں ہوتا
فرشتہ ہی چلا آئے اگر انساں نہیں آتا
مرا دل ہے بیاباں غار ایسا کیوں نہیں ہوتا
کسی کی یاد کی ٹھنڈی ہوائیں آج بھی ہیں پر
کریں دل کو گل و گلزار ایسا کیوں نہیں ہوتا
غزل کا شعر ان پر بھی اثر انداز ہوتا ہے
میاں الفتؔ مگر ہر بار ایسا کیوں نہیں ہوتا

غزل
سجے ہیں ہر طرف بازار ایسا کیوں نہیں ہوتا
شاداب الفت