سعی غیر حاصل کو مدعا نہیں ملتا
بے نیاز دل بن کر دیکھ کیا نہیں ملتا
زندگیٔ رفتہ کا کچھ پتا نہیں ملتا
خاک پا تو ملتی ہے نقش پا نہیں ملتا
اس کا آئنہ ہے دل جا بہ جا نہیں ملتا
دل میں جب ہو تاریکی پھر خدا نہیں ملتا
آمد بہاراں کا اک پیام لانے سے
کیوں ترا دماغ آخر اے صبا نہیں ملتا
آئنہ بہ آئینہ ہم نے دیکھ ڈالے دل
ایک سا زمانے میں دوسرا نہیں ملتا
جو تری نگاہوں سے بے پیے ملا ساقی
لاکھ جام پی کر بھی وہ مزا نہیں ملتا
خضر راہ نے کتنے میر کارواں لوٹے
ہائے وہ جو کہتے ہیں رہنما نہیں ملتا
اس کی اور منزل ہے میری اور منزل ہے
شیخ سے فگارؔ اپنا راستہ نہیں ملتا
غزل
سعی غیر حاصل کو مدعا نہیں ملتا
فگار اناوی