صحراؤں میں بھی کوئی ہم راز گلوں کا ہے
گلشن میں کوئی رہ کر خوشبو کو ترستا ہے
اک دن تو کھلے گا یہ دروازۂ دل تیرا
اب دیکھنا ہے کب تک احساس بھٹکتا ہے
نیندوں کے مکاں میں ہے جس دن سے ترا چہرہ
کھلتی ہیں یہ آنکھیں تو اک خوف سا لگتا ہے
اک روز یہی کرچیں بینائیاں بخشیں گی
یہ شیشۂ دل تم نے کیا سوچ کے توڑا ہے
کیسے میں یقیں کر لوں اخلاص نہیں باقی
اپنوں کی عداوت کا یہ ہی تو وسیلہ ہے
جو حوصلہ طوفاں کو اک کھیل سمجھتا تھا
اب آپ کی یادوں کے دریا میں وہ ڈوبا ہے
ساقی کی تسلی بھی واجدؔ ہے نشہ جیسے
اخلاص کا پیکر ہے اخلاق کا پتلا ہے
غزل
صحراؤں میں بھی کوئی ہم راز گلوں کا ہے
واجد سحری