صحرا سے ندی کے سفر میں رواں تھی خاک
یعنی اپنی اصل میں اک امکاں تھی خاک
ایسی تازہ کاری اس بوسیدہ ورق پر
میری شکل میں آنے سے پہلے کہاں تھی خاک
ہوا اڑائی اس نے اک اک عالم کی
یہ اس دور کی بات ہے جب کہ جواں تھی خاک
اک خوشبو کی زد میں تھا اس کا ہر رقص
اور اسی خوشبو کے لیے مکاں تھی خاک
اس میں جتنی گرہیں تھیں سب آب کی تھیں
ورنہ اپنے رنگ میں تو آساں تھی خاک
غزل
صحرا سے ندی کے سفر میں رواں تھی خاک
مہندر کمار ثانی