EN हिंदी
صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے | شیح شیری
sahra mein jo mila tha mujhe itna yaad hai

غزل

صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے

نفس انبالوی

;

صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے
میرا ہی نقش پا تھا مجھے اتنا یاد ہے

اتنا لہو لہو تو نہیں تھا بدن مرا
ہاں زخم اک ہرا تھا مجھے اتنا یاد ہے

پھر کیا ہوا کبھی مری بربادیوں سے پوچھ
تیری طرف چلا تھا مجھے اتنا یاد ہے

وو بھیڑ میں کھڑا ہے جو پتھر لیے ہوئے
کل تک مرا خدا تھا مجھے اتنا یاد ہے

اک شہر جس نے کل مری آواز چھین لی
وو شہر بےنوا تھا مجھے اتنا یاد ہے

میں جیسے مدتوں سے اسی رہ گزر میں ہوں
پل بھر کا فاصلہ تھا مجھے اتنا یاد ہے

جانے پھر اس کے باد مجھے اس نے کیا کہا
حافظ خدا کہا تھا مجھے اتنا یاد ہے

چہرہ کسی کا اب بھی تصور میں ہے نفسؔ
اک اجنبی ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے