صحرا میں ہر طرف ہے وہی شور العطش
دریا کا رخ بدل نہ سکے لوگ آخرش
پائے گئے ہیں ایک خط مستقیم پر
یکساں ہیں اب ہماری نظر میں جہات شش
رخ سے حقیقتوں کے حجابات اٹھ گئے
اب اعتبار دید پہ کھائے گا کون غش
وہ اختیار دید کی صورت نہیں رہی
دل سے نکل چکا ہے ہر اک تیر نیم کش
اے آفتاب صبح فراغت ادھر کہاں
ہم لوگ پی رہے ہیں ابھی زہر کشمکش
حامدؔ حریم ذات میں خود اپنی دیکھیے
آخر چھپا ہوا ہے یہاں کون برق وش
غزل
صحرا میں ہر طرف ہے وہی شور العطش
حامد حسین حامد