صحرا کو دریا سمجھا تھا
میں بھی تجھ کو کیا سمجھا تھا
ہاتھ چھڑا کر جانے والے
میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا
پھر جاؤں گا اپنی زباں سے
کیا مجھ کو ایسا سمجھا تھا
اتنی آنکھ تو مجھ میں بھی تھی
دنیا کو دنیا سمجھا تھا
میں نے تجھ کو منزل جانا
تو مجھ کو رستہ سمجھا تھا
بے آئینہ شہر نے مجھ کو
خود سا بے چہرا سمجھا تھا
کیا سے کیا نکلا ہے، تو بھی
میں تجھ کو کیسا سمجھا تھا
غزل
صحرا کو دریا سمجھا تھا
خالد معین