صحرا کی بے آب زمیں پر ایک چمن تیار کیا
اپنے لہو سے سینچ کے ہم نے مٹی کو گل زار کیا
یوں ہم اپنے گھر سے نکلے گھر ہم کو تکتا ہی رہا
ہم نے ادا بھیگی آنکھوں سے قرض در و دیوار کیا
کتنی آنکھیں شوق سراپا کتنے چہرے حرف سوال
جانے پھر کیا سوچ کے ہم نے خود کو ترا بیمار کیا
تم نہ کہو تاریخ کہے گی ہم ہیں کس معیار کے لوگ
پتھر کھائے پھول تراشے راہوں کو ہموار کیا
شعلے لپکے جب بھی ہم کو برکھا رت کی یاد آئی
آنکھیں برسیں جب بھی ہم نے ذکر لب و رخسار کیا
ایک ہی رخ تک اپنا مزاج ذوق وفا محدود نہیں
رنگ دیا مے خانے کو بھی مقتل سے بھی پیار کیا
رسم محبت شاعرؔ ہم کو چلتی ہوئی تلوار بنی
جس کو بنایا ہم نے اپنا اس نے ہمیں پر وار کیا
غزل
صحرا کی بے آب زمیں پر ایک چمن تیار کیا
شاعر لکھنوی