صحرا کے سنگین سفر میں آب رسانی کم نہ پڑے
ساری آنکھیں بھر کر رکھنا دیکھو پانی کم نہ پڑے
ذہن مسلسل قصے سوچیں ہونٹھ مسلسل ذکر کریں
صبح تلک زندہ رہنا ہے کہیں کہانی کم نہ پڑے
عشق نے سونپا ہے مجھ کو اک صحرا کی تعمیر کا کام
اور ہدایت کی ہے ذرہ بھر ویرانی کم نہ پڑے
میری شہ رگ کاٹی اس نے اور کہا شوخی کے ساتھ
تو سچا عاشق ہے تو پھر دیکھ روانی کم نہ پڑے
تھوڑا تھوڑا مرتا بھی رہتا ہوں میں جینے کے ساتھ
تاکہ وقت ضرورت مرنے کی آسانی کم نہ پڑے
سجدہ کرنے کو ہوتا ہوں ایک بہت ہی بڑے بت کا
اور پھر سوچتا ہوں یہ چھوٹی سی پیشانی کم نہ پڑے
ہمیں چھپانے کو دنیا نے کھول دیے کپڑوں کے تھان
چاک گریبانی یہ ترا زور عریانی کم نہ پڑے
تم فرحتؔ احساس بس اپنے آپ کو مرنے مت دینا
تاکہ دفتر دنیا میں دخل انسانی کم نہ پڑے
غزل
صحرا کے سنگین سفر میں آب رسانی کم نہ پڑے
فرحت احساس