EN हिंदी
صحرا کا پتا دے نہ سمندر کا پتا دے | شیح شیری
sahra ka pata de na samundar ka pata de

غزل

صحرا کا پتا دے نہ سمندر کا پتا دے

نشتر خانقاہی

;

صحرا کا پتا دے نہ سمندر کا پتا دے
اچھا ہو کہ اب مجھ کو مرے گھر کا پتا دے

ہے کون مرا دشمن جاں مجھ کو خبر ہے
کب میں نے کہا مجھ کو ستم گر کا پتا دے

یہ رات اماوس کی تو کاٹے نہیں کٹتی
اب آ کے مجھے ماہ منور کا پتا دے

خطرے میں پڑی جاتی ہے مقتول کی پہچان
شاید ہی کوئی شہر میں اب سر کا پتا دے

بے سمت و جہت بھیڑ میں شامل نہ ہو اس سے
امت کا پتہ پوچھ پیمبر کا پتا دے

میدان ہے خالی کوئی پرچم ہے نہ سر ہے
ہے کون جو کھوئے ہوئے لشکر کا پتا دے

اب آخری تارا بھی ہوا آنکھ سے اوجھل
اے آسماں اب صبح کے منظر کا پتا دے