صحرائے خیال کا دیا ہوں
ویرانۂ شب میں جل رہا ہوں
ساغر کی طرح سے چور ہو کر
محفل میں بکھر بکھر گیا ہوں
اپنے ہی لہو کی روشنی میں
نیرنگ جہاں کو دیکھتا ہوں
وہ چاند ہوں گردشوں میں آ کر
خود اپنی نظر سے کٹ گیا ہوں
ہر عہد ہے میرے دم سے رنگین
میں نغمۂ ساز ارتقا ہوں
آئینہ صفت نظر سے تیری
عکس در و بام بن گیا ہوں
احساس کی تلخیوں میں ڈھل کر
میں درد کا چاند بن گیا ہوں
سن لو مجھے میکدہ پرستو!
بھیگی ہوئی رات کی صدا ہوں
گل زار میں رہ کے بھی رضاؔ میں
خوشبو کے لیے ترس گیا ہوں
غزل
صحرائے خیال کا دیا ہوں
رضا ہمدانی