سہنے کو تو سہہ جائیں غم کون و مکاں تک
اے خالق ہر درد مگر پھر بھی کہاں تک
پہنچے نہ کہیں دیدۂ خوننابہ فشاں تک
وہ حرف شکایت نہیں آیا جو زباں تک
یہ میری نگاہوں کے بنائے ہوئے منظر
کمبخت وہیں تک ہیں نظر جائے جہاں تک
اک رسم وفا تھی وہ زمانے نے اٹھا دی
اک زحمت بیکار تھی اٹھتی بھی کہاں تک
تم معتمد راز تھے کس طرح سے پہنچی
حیرت ہے مری بات زمانے کی زباں تک
چھوٹے جو قفس سے تو وہی قید چمن تھی
آزاد یہاں تک تھے گرفتار یہاں تک
تصویر رخ یار کھنچی جاتی ہے یاورؔ
ملتی ہے فریب غم دوراں سے کہاں تک

غزل
سہنے کو تو سہہ جائیں غم کون و مکاں تک
یاور عباس