صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو
اور قاتل کا نیا نام مسیحا رکھ دو
اب تو رسوائی کی حد میں ہے میری تشنہ لبی
اب تو ہونٹھوں پہ دہکتا ہوا شعلہ رکھ دو
کتنی تاریک ہے شب میرے مکاں کی یاروں
ان منڈیروں پہ کوئی چاند سا چہرہ رکھ دو
اب کی بارش میں مرا نام چمک جائے گا
لاکھ تم ریت کی تہہ میں مرا کتبہ رکھ دو
پھر بھی حق بات کے کہنے سے نہ بعض آؤں گا
میرے ہاتھوں پہ بھلے دولت دنیا رکھ دو
نیند سی آنے لگی زلف کے سائے میں مجھے
پھر مرے خوابوں پہ تپتا ہوا صحرا رکھ دو
میرے افسانے کو پھر موڑ نیا سا دے دو
اور عنوان سلگتا ہوا لمحہ رکھ دو
جو سمجھتے ہی نہیں میری زباں کو عشرتؔ
ان کے افکار میں میرا لب و لہجہ رکھ دو

غزل
صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو
عشرت کرتپوری