صحن احساس میں اک نقش نہاں تھا پہلے
تو نہیں تھا ترے ہونے کا گماں تھا پہلے
تہ بہ تہ چار سو خوش رنگ صدا روشن تھی
مجھ سے پہلے بھی کوئی جیسے یہاں تھا پہلے
وہ بھی صحرا کی صداؤں میں گرفتار رہا
اور مجھ میں بھی کوئی ریگ رواں تھا پہلے
وقت نے کر دیا پتھر کی لحد میں تبدیل
اپنا چھوٹا سا جو مٹی کا مکاں تھا پہلے
اب تو آئینۂ احساس ہے بے عکس جمال
مجھ سے چھپ کر بھی کوئی مجھ پہ عیاں تھا پہلے
وہ نہیں تھا تو نہ تھا اس کی ضرورت کیا تھی
اپنے ہونے کا بھی احساس کہاں تھا پہلے
روز و شب سہتے رہے ٹوٹتے لمحوں کا عتاب
کوئی خنجر سا قریب رگ جاں تھا پہلے
آپ کی ہم سفری نے سفر آسان کیا
ورنہ ہر گام یہاں کوہ گراں تھا پہلے
خوش بیانی نے کسی کی مجھے خوش رنگ کیا
اپنا کچھ اور ہی انداز بیاں تھا پہلے
ان سے ملتے ہی ہر اک غم سے ملی نازؔ نجات
زندگی کا یہ حسیں چہرہ کہاں تھا پہلے
غزل
صحن احساس میں اک نقش نہاں تھا پہلے
ناز قادری