سہمی ہے شام جاگی ہوئی رات ان دنوں
کتنے خراب ہو گئے حالات ان دنوں
یعنی کہ میں خدا سے بہت دور ہو گیا
اٹھتے نہیں دعا کو مرے ہاتھ ان دنوں
روٹھی ہوئی ہے چاند سے اک چاندنی دلہن
بے نور ہے یہ تاروں کی بارات ان دنوں
نا آشنائے سوزش غم ہے تمام شہر
سمجھے نہ تم بھی حدت جذبات ان دنوں
اترا ہے میری آنکھ میں بادل کا اک ہجوم
ہر صبح و شام ہوتی ہے برسات ان دنوں
مدت ہوئی کہ چھوٹ گیا خود سے اپنا نفس
تم سے بھی ہو سکی نہ ملاقات ان دنوں
یہ شعر و شاعری کا ہی فیضان ہے قمرؔ
دشمن بھی کر رہا ہے تری بات ان دنوں

غزل
سہمی ہے شام جاگی ہوئی رات ان دنوں
قمر عباس قمر