EN हिंदी
سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے | شیح شیری
sahen kab tak jafaen bewafai dekhne wale

غزل

سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے

مضطر خیرآبادی

;

سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے
کہاں تک جان پر کھیلیں جدائی دیکھنے والے

ترے بیمار غم کی اب تو نبضیں بھی نہیں ملتیں
کف افسوس ملتے ہیں کلائی دیکھنے والے

خدا سے کیوں نہ مانگیں کیوں کریں منت امیروں کی
یہ کیا دیں گے کسی کو آنہ پائی دیکھنے والے

بتوں کی چاہ بنتی ہے سبب عشق الٰہی کا
خدا کو دیکھ لیتے ہیں خدائی دیکھنے والے

مہینوں بھائی بندوں نے مرا ماتم کیا مضطرؔ
مہینوں روئے خالی چارپائی دیکھنے والے