سحر و شام میں تنظیم کہاں ہوتی ہے
خواہش صبح کی تجسیم کہاں ہوتی ہے
لوٹ لے جاتا ہے بس چلتا ہے جس کا جتنا
روشنی شہر میں تقسیم کہاں ہوتی ہے
ان محلوں میں جہاں ہم نے گزاری ہے حیات
مدرسے ہوتے ہیں تعلیم کہاں ہوتی ہے
شہریاروں نے اجاڑا ہو جسے ہاتھوں سے
پھر سے آباد وہ اقلیم کہاں ہوتی ہے
تیرتے ہیں جو غلاموں کی جھکی آنکھوں میں
ان سوالات کی تفہیم کہاں ہوتی ہے
جس کا اعزاز ترے در کی گدائی ہو اسے
عمر بھر خوئے زر و سیم کہاں ہوتی ہے
ہم غریبوں کی جبیں پر کسی جابر کے حضور
تہمت سجدۂ تسلیم کہاں ہوتی ہے

غزل
سحر و شام میں تنظیم کہاں ہوتی ہے
سرور ارمان