سحر کے ساتھ چلے روشنی کے ساتھ چلے
تمام عمر کسی اجنبی کے ساتھ چلے
ہمیں کو مڑ کے نہ دیکھا ہمیں سے کچھ نہ کہا
اس احتیاط سے ہم زندگی کے ساتھ چلے
تمہارے شہر میں انجان سا مسافر تھا
تمہارے شہر میں جس آدمی کے ساتھ چلے
غموں نے پیار سے جس وقت ہاتھ پھیلائے
تو سب کو چھوڑ کے ہم کس خوشی کے ساتھ چلے
غزل
سحر کے ساتھ چلے روشنی کے ساتھ چلے
خورشید احمد جامی