EN हिंदी
سحر کا نور ہے تاروں کا انعکاس نہیں | شیح شیری
sahar ka nur hai taron ka inikas nahin

غزل

سحر کا نور ہے تاروں کا انعکاس نہیں

جے پی سعید

;

سحر کا نور ہے تاروں کا انعکاس نہیں
فریب خوردہ ہو تم یا ضیا شناس نہیں

جبین صبح پہ تحریر ہے یہ خط جلی
نئے نظام میں تفریق عام و خاص نہیں

یہ کس وثوق سے انوار صبح کہتے ہیں
نئی حیات سے کوئی بھی وجہ یاس نہیں

یہ اور بات ہے دل خون ہو گیا غم سے
نظر میں آپ کی اب بھی کوئی اداس نہیں

وہ اور ہوں گے جنہیں زندگی کے عیش ملے
یہاں تو ایک تبسم بھی ہم کو راس نہیں

فریب و کذب دریا سے میں بے تعلق ہوں
بجز خلوص و وفا کچھ بھی میرے پاس نہیں

سعیدؔ دوست ملے ہیں مجھے کچھ ایسے بھی
کہ جن کو مہر و محبت کا کوئی پاس نہیں