سحر جب بستر راحت سے وہ رشک قمر اٹھا
غلامی اس کی میں خورشید لے تیغ و سپر اٹھا
ابھی تسکیں ہوئی تھی اک ذرا فریاد و زاری سے
لگا دل مضطرب ہونے کہ پھر درد جگر اٹھا
گلے پر میرے خنجر پھیرتا وہ اور بھی لیکن
ہوئی مجھ سے خطا اتنی کہ میں فریاد کر اٹھا
نہیں معلوم اے یارو صباؔ کے دل میں کیا آیا
ابھی جو بیٹھے بیٹھے وہ یکایک آہ کر اٹھا
غزل
سحر جب بستر راحت سے وہ رشک قمر اٹھا
لالہ کانجی مل صبا