سحر ہوئی تو خیالوں نے مجھ کو گھیر لیا
جب آئی شب ترے خوابوں نے مجھ کو گھیر لیا
مرے لبوں پہ ابھی نام تھا بہاروں کا
ہجوم شوق میں خاروں نے مجھ کو گھیر لیا
کبھی جنوں کے زمانے کبھی فراق رتیں
کہاں کہاں تری یادوں نے مجھ کو گھیر لیا
نکل کے آ تو گیا گہرے پانیوں سے مگر
کئی طرح کے سرابوں نے مجھ کو گھیر لیا
یہ جی میں تھا کہ نکل جاؤں تجھ سے دور کہیں
کہ تیرے دھیان کی بانہوں نے مجھ کو گھیر لیا
جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح
تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا
ہجوم رنج سے کیسے نکل سکے بسملؔ
تری تلاش کے رشتوں نے مجھ کو گھیر لیا
غزل
سحر ہوئی تو خیالوں نے مجھ کو گھیر لیا
بسمل صابری