سحر ہم نے چمن اندر عجب دیکھا کل اک دل بر
سہی قامت پری پیکر مقطع وضع خوش منظر
سخن بر غنچہ لب گل رو جبین مہر اور کماں ابرو
دو چشم شوخ پر جادو نگہ تیر اور مژہ نشتر
شمیم زلف مشک افشاں تغافل سو ستم ساماں
غرور اور ناز بے پایاں مزاج اور طبع نازک تر
ادائیں سب فسوں آئیں نہ چھوڑیں دل نہ چھوڑیں دیں
فریب و عشوہ صلح آگیں عتاب و غمزہ جنگ آور
یہ دیکھا ہم نے جب عالم تو رکھ دل ہاتھ پر ہمدم
کہا ہیں نذر کرتے ہم جو لے لیجے تو ہے بہتر
کہا لے جا تو اپنا دل کہ تو کیا اور تیرا دل
نہ لیویں ہم تو ایسا دل کہا جب ہم نے یوں ہنس کر
یہی اک دل ہے بچارا بھلا ہے یا کہ ناکارہ
اگرچہ ہے یہ آوارہ و لیکن ہے وفا پرور
جو نامنظور کرتے ہو تو کر دو یہ کب اٹھتا ہے
ہے جب تک دم میں دم اس کے رہے گا یہ اسی در پر
نظیرؔ اس نے سنا یہ جب تو بولا یوں وہ شیریں لب
ہمارا ہو چکا یہ اب بس اس قصے کو کوتہ کر
غزل
سحر ہم نے چمن اندر عجب دیکھا کل اک دل بر
نظیر اکبرآبادی